بسمہ تعالیٰ
جہاں میں تذکرہ شام و سحر حسین کا ہے
جھکا نہ ظلم کے آگے وہ سر حسین کا ہے
بغیرتیغ کے لشکر ہرادیا جس نے
زمین کرب و بلا پر پسر حسین کا ہے
ضعیف کیسے جوانوں سے جا کے لڑتا ہے
حبیب کو یہ سکھایا ہنر حسین کا ہے
سنا کو توڑ دیا جس نے اپنے سینے سے
علی کا پوتا ہے وہ اور پسر حسین کا ہے
اٹھایا دھر میں خیبر کے باب کو جس نے
اساس دین پیمبر پدر حسین کا ہے
ستم کو خون کے آنسو رلا دیا اس نے
زمانہ دیکھ لے یہ شیر نر حسین کا ہے
عطش پہ حرنے جو قربان کر دیا سب کچھ
یہ اور کچھ نہیں اس پر اثر حسین کا ہے
حصول تاج کی خاطر نہیں قیام حسین
بقاء دین کی خاطر سفر حسین کا ہے
لہو کی دھار سے خنجر کو کر دیا بیکار
جہان کل میں فقط یہ ہنر حسین کا ہے
پلایا جس نے ہے نہر فرات کو پانی
نہیں ہے کوئی بھی بھائی مگر حسین کا ہے
سمجھ سکے گا کوئی کیا حسین کا رتبہ
بلندیوں سے بھی آگے سفر حسین کا ہے
نہ دیکھیے مجھے گرتی نظر سے اہل جہاں
گناہگار ہے راہب مگر حسین کا ہے
Comments
Post a Comment