منقبت مولاۓ کائنات امیرالمومنین حضرت علیؑ ابنِ ابوطالب علیہ السلام
زمانہ جب نہ سمجھ پایا ابتدائے علیؑ
سمجھ سکے گا بھلا خاک انتہاۓ علیؑ
فقط خدا و محمدؐ ہیں آشناۓ علیؑ
تو پھر کسی سے بھی ممکن کہاں ثناۓ علیؑ
علیؑ امام ہمارے ہیں ہم گداۓ علیؑ
ہزار جانِ گرامی فدا براۓ علیؑ
علیؑ کا نام لیا مشکلیں فرار ہوئیں
کہیں بھی اور بھلا جاۓ کیوں گداۓ علیؑ
ہمارے اوج پہ حوریں بہشت کی ہوں نثار
اگر نصیب سے مل جاۓ خاکِ پاۓ علیؑ
سوال، قبر میں اول یہی کریں گے ملک
کتاب دل پہ بھی تحریر ہے ثناۓ علیؑ
جدید اسلحے لے کر ڈراؤ اور کو تم
ہمارے سر پہ ہے سایہ فگن دعاۓ علیؑ
ہمارے سامنے یہ تاج و تخت کیا ہیں بھلا
ہمیں نہ چھیڑے زمانہ ہیں ہم فناۓ علیؑ
علیؑ کے در سے تمسک ہے لازمی اے دوست
بقاۓ دینِ محمدؐ ہے بس بقاۓ علیؑ
یہ مانا دل میں بہت سی ہیں خواہشات مگر
مری طلب سے کہیں ہے سِوا عطاۓ علیؑ
عجیب سونا تھا دے دی رضا شبِ ہجرت
کچھ اتنی حق کو پسند آ گئی اداۓ علیؑ
قسم ہے کعبے کے رب کی میں کامیاب ہوا
لگی جو سجدے میں ضربت تھی یہ صداۓ علیؑ
نبیؐ نے موقع دیا سب کو جنگِ خیبر میں
ہو حوصلہ تو کرو فتح تم بجاۓ علیؑ
اِدھر اُدھر تو بہت سے نشاں ملیں گے مگر
خدا کے گھر میں درخشاں ہے نقشِ پاۓ علیؑ
جدارِ کعبہ ہوئی شق حرم میں شور مچا
بتوں کی خیر نہیں ہے حرم میں آۓ علیؑ
نبیؐ کی گود میں پہنچے تو کھول دیں آنکھیں
نظر ملی جو نبیؐ سے تو مسکراۓ علیؑ
نبیؐ سے عرض کی بچے نے اے حبیبِ خدا
اگر ہو اِذن کلامِ خدا سناۓ علیؑ
پھر اس کے بعد تلاوت کا تھا عجیب سماں
رسولؐ جھوم اُٹھے بولے ہم فداۓ علیؑ
جو عاقبت کو بنا دے وہ دل عطا ہو مجھے
اِلٰہی اتنی مری سن لے تٗو براۓ علیؑ
ہم اپنے نفس سے مقبولؔ خوب واقف ہیں
کہاں ہماری عقیدت کہاں وِلاۓ علیؑ
از نتیجۂہ فکر:- مقبولؔ جائسی
Comments
Post a Comment