نوید آئی ہے , نکلا ہے اشتہار ظہور
کہ آنے والا ہے غیبت سے شہ سوار ظہور
مزاج ان کی زیارت سے اتنا بدلا ہے
خزاں بھی ہو گئی ہم مشرب بہار ظہور
جو رکھ کے گھومتے ہیں سر پہ بانیان ستم
وہ تاج روند کے رکھ دے تاجدار ظہور
یہ دنیا جیسی ہے ویسی سدا نہیں رہے گی
بدلنے آئے گا شہروں کو شہریار ظہور
خیام غیب میں بیٹھا وہ شاہزادہ غیب
کئی برس سے ہے مصروف انتظار ظہور
کشش اسی کی نمایاں ہے ذرے ذرے میں
اگر چہ کہنے کو روپوش ہے نگار ظہور
سوال : کیا ہے مریضان لا دوا کا علاج
جواب : چلتی ہوئی باد خوش گوار ظہور
ادھر اٹھا ہوا طاغوت کا غرور میں سر
ادھر تنی ہوئی غصے میں ذوالفقار ظہور
ستم گروں کو پتا بھی نہیں کے ان کے لئے
فشار قبر کی مانند ہے فشار ظہور ہے
پئیں گے شیر ہرن ایک گھاٹ سے پانی
یہی تو سب سے بڑا ہوگا شاہکار ظہور
ندیم سرسوی
Comments
Post a Comment